ارشادِ باری ہوا: تم (سب) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں، اور تمہارے لئے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات (مقرر کر دیئے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا جا رہا ہے، اس پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا)،
English Sahih:
[Allah] said, "Descend, being to one another enemies. And for you on the earth is a place of settlement and enjoyment [i.e., provision] for a time."
1 Abul A'ala Maududi
فرمایا، "اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اور تمہارے لیے ایک خاص مدت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامان زیست ہے"
2 Ahmed Raza Khan
فرمایا اُترو تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے،
3 Ahmed Ali
فرمایا یہاں سے اترو تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور ایک وقت تک نفع اٹھانا ہے
4 Ahsanul Bayan
حق تعالٰی نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
(خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانہ اور (زندگی کا) سامان (کر دیا گیا) ہے
6 Muhammad Junagarhi
حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک
7 Muhammad Hussain Najafi
ارشاد ہوا! تم دونوں (بہشت سے) نیچے اترو۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت معلوم تک تمہارا زمین میں ہی ٹھکانہ اور سامانِ زیست ہے۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
ارشاد ہوا کہ تم سب زمین میں اتر جاؤ اور سب ایک دوسرے کے دشمن ہو -زمین میں تمہارے لئے ایک مّدت تک ٹھکانا اور سامان زندگانی ہے
9 Tafsir Jalalayn
(خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے ایک وقت خاص تک زمین پر ٹھکانا اور زندگی کا سامان کردیا گیا ہے،
10 Tafsir as-Saadi
یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم اور حوا کو جمع کے صیغے کے ساتھ مخاطب کر کے نیچے اترنے کا حکم دیا، کیونکہ ابلیس تو اس سے قبل اتارا جا چکا تھا، پھر سب زمین کی طرف اتارے گئے۔ آدم و حوا علیہما السلام کے ساتھ ابلیس کو بھی بتکرار حکم دیا گیا تاکہ معلوم ہو کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں گے، کیونکہ ابلیس انسان سے کبھی جدا نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت ساتھ رہتا ہے اور اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ ﴿ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ﴾ کا جملہ (اِهْبِطُوا) کی ضمیر سے حال ہونے کی بنا پر نصب کے مقام پر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم و حو علیہما السلام اور شیطان سے کہا کہ سب جنت سے نکل کر زمین پر اتر جاؤ درآں حالیکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو زمین پر تمہارا ٹھکانا ہے، اس وقت تک، جب تک تمہارا زمین میں رہنا مقدر ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
Allah ney ( Adam , unn ki biwi aur iblees say ) farmaya : abb tum sabb yahan say utar jao , tum aik doosray kay dushman hogay , aur tumharay liye aik mauddat tak zameen mein thehrna aur kissi qadar faeeda uthana ( tey kerdiya gaya ) hai .
12 Tafsir Ibn Kathir
سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم، حضرت حوا، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے۔ بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم ہیں اور شیطان ملعون۔ جیسے سورة طہ میں ہے آیت (اھبطا منھا جمیعا) حوا حضرت آدم کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آگیا۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن میں یا حدیث میں ضرور ہوتا، کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہوگا۔ جیسے فرمان ہے آیت (منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے، پھر بدلہ دیئے جائیں گے۔