اور اہلِ جنت دوزخ والوں کو پکار کر کہیں گے: ہم نے تو واقعتاً اسے سچّا پالیا جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، سو کیا تم نے (بھی) اسے سچّا پایا جو وعدہ تمہارے ربّ نے (تم سے) کیا تھا؟ وہ کہیں گے: ہاں۔ پھر ان کے درمیان ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ظالموں پر اﷲ کی لعنت ہے،
English Sahih:
And the companions of Paradise will call out to the companions of the Fire, "We have already found what our Lord promised us to be true. Have you found what your Lord promised to be true?" They will say, "Yes." Then an announcer will announce among them, "The curse of Allah shall be upon the wrongdoers
1 Abul A'ala Maududi
پھر یہ جنت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے، "ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پا لیا جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی ان وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے رب نے کیے تھے؟" وہ جواب دیں گے "ہاں" تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ "خدا کی لعنت اُن ظالموں پر
2 Ahmed Raza Khan
اور جنت والوں نے دوزخ والوں کو پکارا کہ ہمیں تو مل گیا جو سچا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا تھا تو کیا تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے سچا وعدہ تمہیں دیا تھا بولے، ہاں! اور بیچ میں منادی نے پکار دیا کہ اللہ کی لعنت ظالموں پر
3 Ahmed Ali
اور بہشت والے دوزخیوں کو پکاریں گے کہ ہم نے وعدہ سچا پایا جو ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا آیاتم بھی اپنے رب کے وعدہ کو سچا پایا وہ کہیں گے ہاں پھر ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ان ظالمو ں پر الله کی لعنت ہے
4 Ahsanul Bayan
اور اہل جنت اہل دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعدہ فرمایا تھا ہم نے اس کو واقعہ کے مطابق پایا سو تم سے جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا تم نے بھی اس کو واقعہ کے مطابق پایا؟ (١) وہ کہیں گے ہاں پھر ایک پکارنے والا دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو ان ظالموں پر۔
٤٤۔١ یہی بات نبی نے جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئیں تھیں۔ انہیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی، جس پر حضرت عمر نے کہا تھا ' آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں جو ہلاک ہو چکے ہیں ' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم، میں انہیں جو کچھ کہ رہا ہوں، وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن اب وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم)
5 Fateh Muhammad Jalandhry
اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچا پایا؟ وہ کہیں گے ہاں تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت
6 Muhammad Junagarhi
اور اہل جنت اہل دوزخ کو پکاریں گے کہ ہم سے جو ہمارے رب نے وعده فرمایا تھا ہم نے تو اس کو واقعہ کے مطابق پایا، سو تم سے جو تمہارے رب نے وعده کیا تھا تم نے بھی اس کو واقعہ کے مطابق پایا وه کہیں گے ہاں، پھر ایک پکارنے واﻻ دونوں کے درمیان میں پکارے گا کہ اللہ کی مار ہو ان ﻇالموں پر
7 Muhammad Hussain Najafi
اور جنتی لوگ دوزخیوں کو ندا دیں گے کہ ہمارے پروردگار نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا اس کو ہم نے تو سچا پا لیا ہے کیا تم نے بھی اس وعدہ کو جو تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا سچا پایا ہے؟ وہ (جواب میں) کہیں گے ہاں تب ایک منادی ان کے درمیان ندا کرے گا کہ خدا کی لعنت ان ظالموں پر۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
اور جنّتی لوگ جہّنمیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو کچھ ہمارے پروردگار نے ہم سے وعدہ کیا تھا وہ ہم نے تو پالیا کیا تم نے بھی حسب وعدہ حاصل کرلیا ہے وہ کہیں گے بیشک .پھر ایک منادی آواز دے گا کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے
9 Tafsir Jalalayn
اور اہل بہشت دوزخیوں سے پکار کر کہیں گے کہ جو وعدہ ہمارے پروردگار نے ہم سے کیا تھا اس کو ہم نے سچا پالیا۔ بھلا جو وعدہ تمہارے پروردگار نے تم سے کیا تھا تم نے بھی اسے سچ پایا ؟ وہ کہیں گے ہاں تو اس وقت ایک پکارنے والاپکار دے گا کہ بےانصافوں پر خدا کی لعنت۔ ونادی اصحب الجنۃ۔۔۔۔۔۔۔ علی الظالمین، یہی بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر میں جو کفار مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں ایک کنویں میں ڈال دی گئی تھیں انھیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی جس پر حضرت عمر (رض) نے سوال کیا تھا، آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں جو ہلاک ہوچکے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اللہ کی قسم میں انھیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن اب وہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے “۔ (صحیح مسلم، کتاب الجنۃ)
10 Tafsir as-Saadi
اللہ تعالیٰ، یہ ذکر کرنے کے بعد کہ اہل ایمان اور کفار جنت اور جہنم میں اپنے اپنے ٹھکانوں میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں سب کچھ ویسا ہی پائیں گے جیسا انبیاء و رسل نے ان کو خبر دی تھی اور جیسا کہ ثواب و عقاب کے بارے میں انبیا کی لائی ہوئی کتابوں میں تحریر تھا، فرماتا ہے کہ اہل جنت جہنمیوں کو پکار کر کہیں گے : ﴿أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا ﴾” کہ جو وعدہ ہمارے رب نے ہم سے کیا تھا ہم نے تو اسے سچا پا لیا۔“ جب اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے اور نیک عمل کرنے پر جنت کا وعدہ کیا تو ہم نے اس کے وعدہ کو سچاپایا، اس نے ہمیں جنت میں داخل کردیا ہم نے وہاں وہ سب کچھ دیکھا جو اس نے ہمارے لیے بیان کیا تھا ﴿فَهَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا﴾” بھلا جو وعدہ تمہارے رب نے تم سے کیا تھا، کیا تم نے بھی اسے سچا پایا؟“ یعنی تمہارے کفر اور معاصی پر تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا کیا تم نے اسے سچاپایا؟ ﴿قَالُوا نَعَمْ ﴾ ” وہ کہیں گے، ہاں !“ ہم نے اسے سچ پایا۔ پس تمام مخلوق کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بات سے زیادہ کس کی بات سچی ہوسکتی ہے؟ تمام شکوک و شبہات دور ہوجائیں گے اور معاملہ حق الیقین بن جائے گا۔ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے وعدے پر خوش ہوں گے، کفار بھلائی سے مایوس ہوجائیں گے۔ وہ اپنے بارے میں خود اقرار کریں گے کہ وہ عذاب کے مستحق ہیں۔ ﴿فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ﴾” تو (اس وقت) ان میں ایک پکارنے والا پکارے گا۔“ پکارنے والا اہل جہنم اور اہل جنت کے درمیان پکار کر کہے گا : ﴿أَن لَّعْنَةُ اللَّـهِ ﴾ ” کہ لعنت ہے اللہ کی‘‘ یعنی ہر بھلائی سے بعد اور محرومی﴿عَلَى الظَّالِمِينَ ﴾” ظالموں پر“ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے اپنی رحمت کے دروازے کھولے مگر انہوں نے اپنے ظلم کی وجہ سے ان سے منہ موڑا، خود اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکے رکھا اور دوسروں کو بھی اس راستے پر نہ چلنے دیا۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کا راستہ سیدھا رہے اور اس پر چلنے والے اعتدال کے ساتھ اس پر گامزن رہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
aur jannat kay log dozakh walon say pukar ker kahen gay kay : humaray perwerdigar ney hum say jo wada kiya tha , hum ney ussay bilkul sacha paya hai . abb tum batao kay tumharay perwerdigar ney jo wada kiya tha , kiya tum ney bhi ussay sacha paya-? woh jawab mein kahen gay : haan itney mein aik munadi unn kay darmiyan pukaray ga kay : Allah ki lanat hai unn zalimon per .
12 Tafsir Ibn Kathir
جنتیوں اور دوزخیوں میں مکالمہ جنتی جب جنت میں جا کر امن چین سے بیٹھ جائیں گے تو دوزخیوں کو شرمندہ کرنے کیلئے ان سے دریافت فرمائیں گے کہ ہم نے تو اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے کئے گئے تھے صحیح پایا تم اپنی کہو۔ ان یہاں پر منسرہ ہے قول محذوف کا اور قد تحقیق کیلئے ہے۔ اس کے جواب میں مشرکین ندامت سے کہیں گے کہ ہاں ہم نے بھی اپنے رب کے ان وعدوں کو جو ہم سے تھے ٹھیک پایا۔ جیسا سورة صافات میں فرمان ہے کہ اہل جنت میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو مجھ سے تعجب کے ساتھ سوال کیا کرتا تھا کہ کیا تو بھی ان لوگوں میں سے ہے جو قیامت کے قائل ہیں ؟ کیا جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ہڈیاں ہو کر رہ جائیں گے کیا واقعہ ہی ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے ؟ اور ہمیں بدلے دیئے جائیں گے ؟ یہ کہہ کر وہ اوپر سے جھانک کر دیکھے گا تو اپنے اس ساتھی کو بیچ جہنم میں پائے گا کہے گا قسم اللہ کی تو تو مجھے بھی تباہ کرنے ہی کو تھا اگر میرے رب کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی آج گرفتار عذاب ہوتا۔ اب بتاؤ دنیا میں جو کہا کرتا تھا کیا سچا تھا کہ ہم مر کر جینے والے اور بدلہ بھگتنے والے ہی نہیں ؟ اس وقت فرشتے کہیں گے یہی وہ جہنم ہے جسے تم جھوٹا مان رہے تھے اب بتاؤ کیا یہ جادو ہے ؟ یا تمہاری آنکھیں نہیں ہیں ؟ اب یہاں پڑے جلتے بھنتے رہو صبر اور بےصبری دونوں نتیجے کے اعتبار سے تمہارے لئے یکساں ہے۔ تمہیں اپنے کئے کا بدلہ پانا ہی ہے۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے ان مقتولوں کو جو بدر میں کام آئے تھے اور جن کی لاشیں ایک کھائی میں تھیں ڈانٹا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ اے ابو جہل بن ہشام، اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ اور دوسرے سرداروں کا بھی نام لیا اور فرمایا کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ؟ میں نے تو اپنے رب کے وہ وعدے دیکھ لئے جو اس نے مجھ سے کئے تھے۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے فرمایا یا رسول اللہ ! آپ ان سے باتیں کر رہے ہیں جو مر کر مردار ہوگئے ؟ تو آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری بات کو تم بھی ان سے زیادہ نہیں سن رہے لیکن وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وقت ایک منادی ندا کر کے معلوم کرا دے گا کہ ظالموں پر رب کی ابدی لعنت واقع ہوچکی۔ جو لوگوں کو راہ حق اور شریعت ہدیٰ سے روکتے تھے اور چاہتے تھے کہ اللہ کی شریعت ٹیڑھی کردیں تاکہ اس پر کوئی عمل نہ کرے۔ آخرت پر بھی انہیں یقین نہ تھا اللہ کی ملاقات کو نہیں مانتے تھے اسی لئے بےپرواہی سے برائیاں کرتے تھے۔ حساب کا ڈر نہ تھا اس لئے سب سے زیادہ بد زبان اور بد اعمال تھے۔