بیشک جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیوی زندگی سے خوش ہیں اور اسی سے مطمئن ہوگئے ہیں اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں،
English Sahih:
Indeed, those who do not expect the meeting with Us and are satisfied with the life of this world and feel secure therein and those who are heedless of Our signs –
1 Abul A'ala Maududi
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہو گئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
2 Ahmed Raza Khan
بیشک وہ جو ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی پسند کر بیٹھے اور اس پر مطمئن ہوگئے اور وہ جو ہماری آیتوں سے غفلت کرتے ہیں
3 Ahmed Ali
البتہ جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیاکی زندگی پر خوش ہوئے اور اسی پر مطمئن ہو گئے اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں
4 Ahsanul Bayan
جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وہ دنیاوی زندگی پر راضی ہوگئے اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطئمن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں
6 Muhammad Junagarhi
جن لوگوں کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے اور وه دنیوی زندگی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس میں جی لگا بیٹھے ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں
7 Muhammad Hussain Najafi
بے شک جو لوگ (مرنے کے بعد) ہماری بارگاہ میں حاضری کی امید نہیں رکھتے اور صرف دنیوی زندگی میں مگن ہیں اور اس پر مطمئن ہیں اور جو لوگ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
یقینا جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں اور زندگانی دنیا پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں
9 Tafsir Jalalayn
جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی توقع نہیں اور دنیا کی زندگی سے خوش اور اسی پر مطمئن ہو بیٹھے اور ہماری نشانیوں سے غافل ہو رہے ہیں۔
10 Tafsir as-Saadi
﴿إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا﴾ ” جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے۔“ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے ہیں جو سب سے بڑی خواہش اور سب سے بڑی آرزو ہے، بلکہ وہ اس سے اعراض اور روگردانی کرتے ہیں اور بسا اوقات اس کی تکذیب کرتے ہیں ﴿وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” اور وہ دنیا کی زندگی سے خوش ہیں۔“ یعنی وہ آخرت کی بجائے دنیا پر راضی ہو گے۔ ﴿ وَاطْمَأَنُّوا بِهَا﴾ ” اور اسی پر مطمئن ہوگئے“ یعنی دنیا کی طرف مائل ہوگئے اور اسی کو اپنی منزل اور اسی کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا۔ دنیا کے حصول کے لئے کوشاں رہے اس کی لذات و شہوات پر ٹوٹ پڑے۔ دنیا انہیں جس طریقے سے بھی حاصل ہوئی، انہوں نے اسے حاصل کرلیا۔ دنیا کی چمک انہیں جہاں کہیں بھی دکھائی دی یہ اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اپنے ارادوں اور نیتوں کو دنیا ہی میں مصروف رکھا، ان کے افکار و اعمال دنیا ہی کے محور پر گھومتی رہے۔ گویا کہ وہ دنیا میں ہمیشہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور گویا کہ دنیا ایک گزر گاہ نہیں جہاں سے مسافر ز ادراہ اکٹھا کر کے ہمیشہ رہنے والی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ اولین و آخرین اس منزل کی نعمتوں اور لذتوں کی طرف کوچ کرتے ہیں اور لپکنے والے انہی کی طرف لپکتے ہیں۔ ﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ﴾ ” اور وہ ہماری آیتوں سے غافل ہیں۔“ پس یہ آیات قرآنی اور آیات نفس و آفاق سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور دلیل سے رو گردانی درحقیقت مدلول مقصود سے روگردانی اور غفلت کومستلزم ہے۔
11 Mufti Taqi Usmani
jo log hum say ( aakhirat mein ) aa-milney ki koi tawaqqo hi nahi rakhtay , aur dunyawi zindagi mein magan aur ussi per mutmaeen hogaye hain , aur jo humari nishaniyon say ghafil hain .
12 Tafsir Ibn Kathir
نادان و محروم لوگ جو لوگ قیامت کے منکر ہیں، جو اللہ کی ملاقات کے امیدوار نہیں۔ جو اس دنیا پر خوش ہوگئے ہیں، اسی پر دل لگا لیا ہے، نہ اس زندگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، نہ اس زندگی کو سود مند بناتے ہیں اور اس پر مطمئن ہیں۔ اللہ کی پیدا کردہ نشانیوں سے غافل ہیں۔ اللہ کی نازل کردہ آیتوں میں غور فکر نہیں کرتے، ان کی آخری جگہ جہنم ہے۔ جو ان کی خطاؤں اور گناہوں کا بدلہ ہے جو ان کے کفر و شرک کی جزا ہے۔