فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اﷲ ہی کی ہے، پس اگر وہ (تمہیں مجبور کرنا) چاہتا تو یقیناً تم سب کو (پابندِ) ہدایت فرما دیتا٭، ٭ وہ حق و باطل کا فرق اور دونوں کا انجام سمجھانے کے بعد ہر ایک کو آزادی سے اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع دیتا ہے، تاکہ ہر شخص اپنے کئے کا خود ذمہ دار ٹھہرے اور اس پر جزا و سزا کا حق دار قرار پائے۔
English Sahih:
Say, "With Allah is the far-reaching [i.e., conclusive] argument. If He had willed, He would have guided you all."
1 Abul A'ala Maududi
پھر کہو (تمہاری اس حجت کے مقابلہ میں) "حقیقت رس حجت تو اللہ کے پاس ہے، بے شک اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا"
2 Ahmed Raza Khan
تم فرماؤ تو اللہ ہی کی حجت پوری ہے تو وہ چاہتا تو سب کی ہدایت فرماتا،
3 Ahmed Ali
کہہ دو پس الله کا الزام پورا ہو چکا پس اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت کردیتا
4 Ahsanul Bayan
آپ کہئے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی ہی رہی۔ پھر اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لے آتا۔
5 Fateh Muhammad Jalandhry
کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا
6 Muhammad Junagarhi
آپ کہیے کہ بس پوری حجت اللہ ہی کی رہی۔ پھر اگر وه چاہتا تو تم سب کو راه راست پر لے آتا
7 Muhammad Hussain Najafi
کہہ دیجئے! کہ اللہ کی دلیل زبردست ہے۔ اگر اللہ (اپنی مشیت قاہرہ سے) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔
8 Syed Zeeshan Haitemer Jawadi
کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس منزل تک پہنچانے والی دلیلیں ہیں وہ اگر چاہتا تو جبرا تم سب کو ہدایت دے دیتا
9 Tafsir Jalalayn
کہہ دو کہ خدا ہی کی حجت غالب ہے۔ اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دیدیتا۔
10 Tafsir as-Saadi
(٣) حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو کسی کے لئے کوئی عذر نہیں رہنے دیتی، جس پر تمام انبیاء و مرسلین، تمام کتب الٰہیہ، تمام آثار نبویہ، عقل صحیح، فطرت سلیم اور اخلاق مستقیم متفق ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ جو کوئی اس آیت قاطعہ کی مخالفت کرتا ہے وہ باطل ہے، کیونکہ حق کی مخالفت کرنے والا باطل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ (٤) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ان تمام افعال کے ارتکاب پر قادر ہے جن کا اسے مکلف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی ایسی چیز واجب نہیں کی جس کے فعل پر وہ قدرت نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی چیز کو اس پر حرام ٹھہرایا ہے جس کو ترک کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ پس اس کے بعد قضاء و قدر کو دلیل بنانا محض ظلم اور مجرد عناد ہے۔ (٥) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال میں جبر نہیں کیا، بلکہ ان کے افعال کو ان کے اختیار کے تابع بنایا ہے۔ پس اگر وہ چاہیں تو کسی فعل کا ارتکاب کریں اور اگر چاہیں تو اس فعل کے ارتکاب سے باز رہ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی کرسکتا ہے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور محسوسات کا انکار کرتا ہے، کیونکہ ہر شخص حرکت اختیاری اور حرکت جبری میں امتیاز کرسکتا ہے اگرچہ تمام حرکات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادے کے تحت آتی ہیں۔ (٦) اپنے گناہوں پر قضا و قدر کو دلیل بنانے والے تناقص (تضاد) کا شکار ہیں، کیونکہ ان کے لئے اس کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ اگر کوئی مار پیٹ یا مال وغیرہ چھین کر ان کے ساتھ برا سلوک کر کے تقدیر کا بہانہ پیش کرتا ہے تو وہ اس شخص کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس شخص پر سخت ناراض ہوں گے۔ نہایت عجیب بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ناراضی کے کاموں پر تو قضا و قدر کا عذر پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کر کے ان کو یہی دلیل پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ (٧) قضا و قدر سے استدلال کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا و قدر کا عذر دلیل نہیں۔ ان کا مقصد تو صرف حق کو ٹھکرانا اور اس کو روکنا ہے کیونکہ وہ حق کو یوں سمجھتے ہیں جیسے کوئی حملہ آور ہو۔ چنانچہ وہ ہر صحیح یا غلط خیال کے ذریعے سے، جو ان کے دل میں آتا ہے، حق کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
11 Mufti Taqi Usmani
. ( aey payghumber ! inn say ) kaho kay : aesi daleel to Allah hi ki hai jo ( dilon tak ) phonchney wali ho . chunacheh agar woh chahta to tum sabb ko ( zabardasti ) hidayat per ley aata .