Skip to main content

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۤىٴِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِىَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۤءُۗ اِنَّهٗ عَلِىٌّ حَكِيْمٌ

وَمَا
اور نہیں
كَانَ
ہے
لِبَشَرٍ
کسی بشر کے لیے
أَن
کہ
يُكَلِّمَهُ
کلام کرے اس سے
ٱللَّهُ
اللہ
إِلَّا
مگر
وَحْيًا
وحی کے طور پر
أَوْ
یا
مِن
سے
وَرَآئِ
پیچھے سے
حِجَابٍ
پردے کے
أَوْ
یا
يُرْسِلَ
وہ بھیجتے
رَسُولًا
کوئی پہنچانے والا
فَيُوحِىَ
تو وہ وحی کرے
بِإِذْنِهِۦ
ساتھ اس کے اذن کے
مَا
جو
يَشَآءُۚ
وہ چاہے
إِنَّهُۥ
یقینا وہ
عَلِىٌّ
بلند ہے،
حَكِيمٌ
حکمت والا ہے

اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے مگر یہ کہ وحی کے ذریعے (کسی کو شانِ نبوت سے سرفراز فرما دے) یا پردے کے پیچھے سے (بات کرے جیسے موسٰی علیہ السلام سے طورِ سینا پر کی) یا کسی فرشتے کو فرستادہ بنا کر بھیجے اور وہ اُس کے اِذن سے جو اللہ چاہے وحی کرے (الغرض عالمِ بشریت کے لئے خطابِ اِلٰہی کا واسطہ اور وسیلہ صرف نبی اور رسول ہی ہوگا)، بیشک وہ بلند مرتبہ بڑی حکمت والا ہے،

تفسير

وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۗ مَا كُنْتَ تَدْرِىْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰـكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِىْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۤءُ مِنْ عِبَادِنَا ۗ وَاِنَّكَ لَتَهْدِىْۤ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍۙ

وَكَذَٰلِكَ
اور اسی طرح
أَوْحَيْنَآ
وحی کی ہم نے
إِلَيْكَ
آپ کی طرف
رُوحًا
ایک وحی کو
مِّنْ
سے
أَمْرِنَاۚ
اپنے حکم
مَا
نہ
كُنتَ
تھا تو
تَدْرِى
جانتا
مَا
کیا ہے
ٱلْكِتَٰبُ
کتاب
وَلَا
اور نہ
ٱلْإِيمَٰنُ
ایمان
وَلَٰكِن
لیکن
جَعَلْنَٰهُ
بنایا ہم نے اس کو
نُورًا
نور
نَّهْدِى
راہ دکھاتے ہیں ہم
بِهِۦ
ساتھ اس کے
مَن
جس کو
نَّشَآءُ
ہم چاہتے ہیں
مِنْ
میں سے
عِبَادِنَاۚ
اپنے بندوں
وَإِنَّكَ
اور بیشک آپ
لَتَهْدِىٓ
رہنمائی کرتے ہیں ۔ البتہ آپ ہدایت ہیں
إِلَىٰ
طرف
صِرَٰطٍ
صراط
مُّسْتَقِيمٍ
مستقیم کی

سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)، اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں)(۱) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں(۲)، ۱:- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اُمّیت کی طرف اشارہ ہے تاکہ کفّار آپ کی زبان سے قرآن کی آیات اور ایمان کی تفصیلات سن کر یہ بدگمانی نہ پھیلائیں کہ یہ سب کچھ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ذاتی علم اور تفکر سے گھڑ لیا ہے کچھ نازل نہیں ہوا، سو یہ اَز خود نہ جاننا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عظیم معجزہ بنا دیا گیا۔ ۲:- اے حبیب! آپ کا ہدایت دینا اور ہمارا ہدایت دینا دونوں کی حقیقت ایک ہی ہے اور صرف انہی کو ہدایت نصیب ہوتی ہے جو اس حقیقت کی معرفت اور اس سے وابستگی رکھتے ہیں۔

تفسير

صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِىْ لَهٗ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الْاَرْضِۗ اَلَاۤ اِلَى اللّٰهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُ

صِرَٰطِ
راستہ
ٱللَّهِ
اللہ کا
ٱلَّذِى
وہ ذات
لَهُۥ
اس کے لیے ہے
مَا
جو
فِى
میں ہے
ٱلسَّمَٰوَٰتِ
آسمانوں
وَمَا
اور جو،
فِى
میں
ٱلْأَرْضِۗ
زمین (میں) ہے
أَلَآ
خبردار
إِلَى
طرف
ٱللَّهِ
اللہ کی
تَصِيرُ
رجوع کرتے ہیں، لوٹتے ہیں
ٱلْأُمُورُ
تمام معاملات۔ سارے امور

(یہ صراطِ مستقیم) اسی اللہ ہی کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے۔ جان لو! کہ سارے کام اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں،

تفسير