وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَاۤ اِلَيْهِ ۗ وَاِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ هٰذَاۤ اِفْكٌ قَدِيْمٌ
اور کافروں نے مومنوں سے کہا: اگر یہ (دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف ہم سے پہلے نہ بڑھتے (ہم خود ہی سب سے پہلے اسے قبول کر لیتے)، اور جب ان (کفار) نے (خود) اس سے ہدایت نہ پائی تو اب کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ (اور بہتان) ہے،
وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۗ وَهٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا ۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَۚ
اور اس سے پہلے موسٰی (علیہ السلام) کی کتاب (تورات) پیشوا اور رحمت تھی، اور یہ کتاب (اس کی) تصدیق کرنے والی ہے، عربی زبان میں ہے تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے ظلم کیا ہے اور نیکوکاروں کے لئے خوشخبری ہو،
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَۚ
بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے،
اُولٰۤٮِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا ۚ جَزَاۤءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ
یہی لوگ اہلِ جنت ہیں جو اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ یہ ان اعمال کی جزا ہے جو وہ کیا کرتے تھے،
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا ۗ حَمَلَـتْهُ اُمُّهٗ كُرْهًا وَّوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۗ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰـثُوْنَ شَهْرًا ۗ حَتّٰۤى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِيْنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِىْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِىْۤ اَنْعَمْتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰٮهُ وَاَصْلِحْ لِىْ فِىْ ذُرِّيَّتِىْ ۗۚ اِنِّىْ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاِنِّىْ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں،
اُولٰۤٮِٕكَ الَّذِيْنَ نَـتَقَبَّلُ عَنْهُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَـتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّاٰتِهِمْ فِىْۤ اَصْحٰبِ الْجَنَّةِ ۗ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِىْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ
یہی وہ لوگ ہیں ہم جن کے نیک اعمال قبول کرتے ہیں اوران کی کوتاہیوں سے درگزر فرماتے ہیں، (یہی) اہلِ جنت ہیں۔ یہ سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جا رہا ہے،
وَالَّذِىْ قَالَ لِـوَالِدَيْهِ اُفٍّ لَّكُمَاۤ اَتَعِدٰنِنِىْۤ اَنْ اُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُوْنُ مِنْ قَبْلِىْ ۚ وَهُمَا يَسْتَغِيْثٰنِ اللّٰهَ وَيْلَكَ اٰمِنْ ۖ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۚ فَيَقُوْلُ مَا هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ
اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم سے بیزاری ہے، تم مجھے (یہ) وعدہ دیتے ہو کہ میں (قبر سے دوبارہ زندہ کر کے) نکالا جاؤں گا حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکیں۔ اب وہ دونوں (ماں باپ) اللہ سے فریاد کرنے لگے (اور لڑکے سے کہا:) تو ہلاک ہوگا۔ (اے لڑکے!) ایمان لے آ، بیشک اللہ کا وعدہ حق ہے۔ تو وہ (جواب میں) کہتا ہے: یہ (باتیں) اگلے لوگوں کے جھوٹے افسانوں کے سوا (کچھ) نہیں ہیں،
اُولٰۤٮِٕكَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِىْۤ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِۗ اِنَّهُمْ كَانُوْا خٰسِرِيْنَ
یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمانِ (عذاب) ثابت ہو چکا ہے بہت سی امتوں میں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں جنّات کی (بھی) اور انسانوں کی (بھی)، بیشک وہ (سب) نقصان اٹھانے والے تھے،
وَلِكُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوْا ۚ وَلِيُوَفِّيَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ
اور سب کے لئے ان (نیک و بد) اعمال کی وجہ سے جو انہوں نے کئے (جنت و دوزخ میں الگ الگ) درجات مقرر ہیں تاکہ (اﷲ) ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا،
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَلَى النَّارِ ۗ اَذْهَبْتُمْ طَيِّبٰـتِكُمْ فِىْ حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا ۚ فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْـتُمْ تَسْتَكْبِرُوْنَ فِى الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُوْنَ
اور جس دن کافر لوگ آتشِ دوزخ کے سامنے پیش کئے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا:) تم اپنی لذیذ و مرغوب چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں ہی حاصل کر چکے اور ان سے (خوب) نفع اندوز بھی ہو چکے۔ پس آج کے دن تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس وجہ سے کہ تم زمین میں ناحق تکبر کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے (بھی) کہ تم نافرمانی کیا کرتے تھے،