قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَـنْظُرْ اَتَهْتَدِىْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِيْنَ لَا يَهْتَدُوْنَ
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اس(ملکہ کے امتحان) کے لئے اس کے تخت کی صورت اور ہیئت بدل دو ہم دیکھیں گے کہ آیا وہ (پہچان کی) راہ پاتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو سوجھ بوجھ نہیں رکھتے،
فَلَمَّا جَاۤءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِۗ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَۚ وَاُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَ كُنَّا مُسْلِمِيْنَ
پھر جب وہ (ملکہ) آئی تو اس سے کہا گیا: کیا تمہارا تخت اسی طرح کا ہے، وہ کہنے لگی: گویا یہ وہی ہے اور ہمیں اس سے پہلے ہی (نبوتِ سلیمان کے حق ہونے کا) علم ہو چکا تھا اور ہم مسلمان ہو چکے ہیں،
وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ
اور اس (ملکہ) کو اس (معبودِ باطل) نے (پہلے قبولِ حق سے) روک رکھا تھا جس کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی۔ بیشک وہ کافروں کی قوم میں سے تھی،
قِيْلَ لَهَا ادْخُلِى الصَّرْحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَـتْهُ لُـجَّةً وَّكَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا ۗ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِيْرَ ۙقَالَتْ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَـفْسِىْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ
اس (ملکہ) سے کہا گیا: اس محل کے صحن میں داخل ہو جا (جس کے نیچے نیلگوں پانی کی لہریں چلتی تھیں)، پھر جب ملکہ نے اس (مزیّن بلوریں فرش) کو دیکھا تو اسے گہرے پانی کا تالاب سمجھا اور اس نے (پائینچے اٹھا کر) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ تو محل کا شیشوں جڑا صحن ہے، اس (ملکہ) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! (میں اسی طرح فریبِ نظر میں مبتلا تھی) بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے،
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ
اور بیشک ہم نے قومِ ثمود کے پاس ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو تو اس وقت وہ دو فرقے ہو گئے جو آپس میں جھگڑتے تھے،
قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِۚ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
(صالح علیہ السلام نے) فرمایا: اے میری قوم! تم لوگ بھلائی (یعنی رحمت) سے پہلے برائی (یعنی عذاب) میں کیوں جلدی چاہتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں طلب نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے،
قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَنْ مَّعَكَ ۗ قَالَ طٰۤٮِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْـتُمْ قَوْمٌ تُفْتَـنُوْنَ
وہ کہنے لگے: ہمیں تم سے (بھی) نحوست پہنچی ہے اور ان لوگوں سے (بھی) جو تمہارے ساتھ ہیں۔ (صالح علیہ السلام نے) فرمایا: تمہاری نحوست (کا سبب) اللہ کے پاس (لکھا ہوا) ہے بلکہ تم لوگ فتنہ میں مبتلا کئے گئے ہو،
وَكَانَ فِى الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ
اور (قومِ ثمود کے) شہر میں نو سرکردہ لیڈر (جو اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ) تھے ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے،
قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَـنُبَيِّتَـنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَـنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ
(ان سرغنوں نے) کہا: تم آپس میں اللہ کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم ضرور رات کو صالح (علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں پر قاتلانہ حملہ کریں گے پھر ان کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم ان کی ہلاکت کے موقع پر حاضر ہی نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں،
وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ
اور انہوں نے خفیہ سازش کی اور ہم نے (بھی اس کے توڑ کے لئے) خفیہ تدبیر فرمائی اور انہیں خبر بھی نہ ہوئی،