وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْـــَٔلْ بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اِذْ جَاۤءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا
اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو نو روشن نشانیاں دیں تو آپ بنی اسرائیل سے پوچھیئے جب (موسٰی علیہ السلام) ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا: میں تو یہی خیال کرتا ہوں کہ اے موسٰی! تم سحر زدہ ہو (تمہیں جادو کر دیا گیا ہے)،
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَاۤءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۤٮِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا
موسٰی (علیہ السلام) نے فرمایا: تو (دل سے) جانتا ہے کہ ان نشانیوں کو کسی اور نے نہیں اتارا مگر آسمانوں اور زمین کے رب نے عبرت و بصیرت بنا کر، اور میں تو یہی خیال کرتا ہوں کہ اے فرعون! تم ہلاک زدہ ہو (تو جلدی ہلاک ہوا چاہتا ہے)،
فَاَرَادَ اَنْ يَّسْتَفِزَّهُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰهُ وَ مَنْ مَّعَهٗ جَمِيْعًا ۙ
پھر (فرعون نے) ارادہ کیا کہ ان کو (یعنی موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو) سر زمینِ (مصر) سے اکھاڑ کر پھینک دے پس ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کردیا،
وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ لِبَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۤءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ۗ
اور ہم نے اس کے بعد بنی اسرائیل سے فرمایا: تم اس ملک میں آباد ہو جاؤ پھر جب آخرت کا وعدہ آجائے گا (تو) ہم تم سب کو اکٹھا سمیٹ کر لے جائیں گے،
وَبِالْحَـقِّ اَنْزَلْنٰهُ وَبِالْحَـقِّ نَزَلَ ۗ وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا ۘ
اور حق کے ساتھ ہی ہم نے اس (قرآن) کو اتارا ہے اور حق ہی کے ساتھ وہ اترا ہے، اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے،
وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا
اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کر کے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے رفتہ رفتہ (حالات اور مصالح کے مطابق) تدریجاً اتارا ہے،
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْۤا ۗ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ۙ
فرما دیجئے: تم اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، بیشک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں،
وَّيَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا
اور کہتے ہیں: ہمارا رب پاک ہے، بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہنا تھا،
وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُهُمْ خُشُوْعًا
اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے،
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۗ اَ يًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَاۤءُ الْحُسْنٰى ۚ وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا
فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں،