اَفَرَءَيْتُمُ النَّارَ الَّتِىْ تُوْرُوْنَۗ
بھلا یہ بتاؤ جو آگ تم سُلگاتے ہو،
ءَاَنْتُمْ اَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَاۤ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِـُٔـوْنَ
کیا اِس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم (اسے) پیدا فرمانے والے ہیں،
نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَۚ
ہم ہی نے اِس (درخت کی آگ) کو (آتشِ جہنّم کی) یاد دلانے والی (نصیحت و عبرت) اور جنگلوں کے مسافروں کے لئے باعثِ منفعت بنایا ہے،
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ
سو اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں،
فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ
پس میں اُن جگہوں کی قَسم کھاتا ہوں جہاں جہاں قرآن کے مختلف حصے (رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر) اترتے ہیں٭، ٭ یہ ترجمہ حضرت عبد اللہ بن عباس کے بیان کردہ معنی پر کیا گیا ہے، مزید حضرت عکرمہ، حضرت مجاہد، حضرت عبد اللہ بن جبیر، حضرت سدی، حضرت فراء اور حضرت زجاج رضی اللہ عنھم اور دیگر ائمہ تفسیر کا قول بھی یہی ہے؛ اور سیاقِ کلام بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ پیچھے سورۃ النجم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم کہا گیا ہے، یہاں قرآن کی سورتوں کو نجوم کہا گیا ہے۔ حوالہ جات کے لئے ملاحظہ کریں: تفسیر بغوی، خازن، طبری، الدر المنثور، الکشاف، تفسیر ابن ابی حاتم، روح المعانی، ابن کثیر، اللباب، البحر المحیط، جمل، زاد المسیر، فتح القدیر، المظہری، البیضاوی، تفسیر ابی سعود اور مجمع البیان۔
وَاِنَّهٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِيْمٌۙ
اور اگر تم سمجھو تو بیشک یہ بہت بڑی قَسم ہے،
اِنَّهٗ لَـقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌۙ
بیشک یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے (جو بڑی عظمت والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اتر رہا ہے)،
فِىْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ
(اس سے پہلے یہ) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے،
لَّا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَۗ
اس کو پاک (طہارت والے) لوگوں کے سوا کوئی نہیں چُھوئے گا،
تَنْزِيْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ
تمام جہانوں کے ربّ کی طرف سے اتارا گیا ہے،