وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِۖ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَۙ
اور (موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لئے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتے رہے اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھے،
وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّـكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَـكُمْ وَهُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ
اور ہم نے پہلے ہی سے موسٰی (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا سو (موسٰی علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں،
فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَىْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّلٰـكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ
پس ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰۤى اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا ۗ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِيْنَ
اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں،
وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰى حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيْهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلٰنِ ۖ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ وَهٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِىْ مِنْ شِيْعَتِهٖ عَلَى الَّذِىْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْهِ ۖ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ ۗ اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ
اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے،
قَالَ رَبِّ اِنِّىْ ظَلَمْتُ نَفْسِىْ فَاغْفِرْ لِىْ فَغَفَرَ لَهٗۗ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
(موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَىَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ
(مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا،
فَاَصْبَحَ فِى الْمَدِيْنَةِ خَاۤٮِٕفًا يَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِى اسْتَـنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ يَسْتَصْرِخُهٗ ۗ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَـغَوِىٌّ مُّبِيْنٌ
پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہے،
فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ يَّبْطِشَ بِالَّذِىْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَا ۙ قَالَ يٰمُوْسٰۤى اَ تُرِيْدُ اَنْ تَقْتُلَنِىْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ ۖ اِنْ تُرِيْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِى الْاَرْضِ وَمَا تُرِيْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ
سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے بنو،
وَجَاۤءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰىۖ قَالَ يٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ يَأْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَـقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّىْ لَـكَ مِنَ النّٰصِحِيْنَ
اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں،