Skip to main content

وَاِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُوْنِۗ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ

وَإِنَّهُۥ
اور بیشک وہ
لَعِلْمٌ
البتہ ایک علامت ہے
لِّلسَّاعَةِ
قیامت کی
فَلَا
تو نہ
تَمْتَرُنَّ
تم شک کرنا
بِهَا
ساتھ اس کے
وَٱتَّبِعُونِۚ
اور پیروی کرو میری
هَٰذَا
یہ ہے
صِرَٰطٌ
راستہ
مُّسْتَقِيمٌ
سیدھا

اور بیشک وہ (عیسٰی علیہ السلام جب آسمان سے نزول کریں گے تو قربِ) قیامت کی علامت ہوں گے، پس تم ہرگز اس میں شک نہ کرنا اور میری پیروی کرتے رہنا، یہ سیدھا راستہ ہے،

تفسير

وَلَا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ ۚ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ

وَلَا
اور نہ
يَصُدَّنَّكُمُ
روکے تم کو
ٱلشَّيْطَٰنُۖ
شیطان
إِنَّهُۥ
بیشک وہ
لَكُمْ
تمہارے لیے
عَدُوٌّ
دشمن ہے
مُّبِينٌ
کھلا

اور شیطان تمہیں ہرگز (اس راہ سے) روکنے نہ پائے، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے،

تفسير

وَ لَمَّا جَاۤءَ عِيْسٰى بِالْبَيِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلِاُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِىْ تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ

وَلَمَّا
اور جب
جَآءَ
لائے
عِيسَىٰ
عیسیٰ
بِٱلْبَيِّنَٰتِ
کھلی نشانیاں
قَالَ
اس نے کہا
قَدْ
تحقیق
جِئْتُكُم
میں لایاہوں تمہارے پاس
بِٱلْحِكْمَةِ
حکمت
وَلِأُبَيِّنَ
اور تاکہ میں بیان کردوں
لَكُم
تمہارے لیے
بَعْضَ
بعض
ٱلَّذِى
وہ چیز
تَخْتَلِفُونَ
تم اختلاف کرتے ہو
فِيهِۖ
جس میں
فَٱتَّقُوا۟
پس ڈرو
ٱللَّهَ
اللہ سے
وَأَطِيعُونِ
اور اطاعت کرو میری

اور جب عیسٰی (علیہ السلام) واضح نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے کہا: یقیناً میں تمہارے پاس حکمت و دانائی لے کر آیا ہوں اور (اس لئے آیا ہوں) کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تمہارے لئے خوب واضح کر دوں، سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو،

تفسير

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ رَبِّىْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُۗ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ

إِنَّ
بیشک
ٱللَّهَ
اللہ تعالیٰ
هُوَ
وہ
رَبِّى
رب ہے میرا
وَرَبُّكُمْ
اور رب تمہارا
فَٱعْبُدُوهُۚ
پس عبادت کرو اس کی
هَٰذَا
یہ ہے
صِرَٰطٌ
راستہ
مُّسْتَقِيمٌ
سیدھا

بیشک اللہ ہی میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا (بھی) رب ہے، پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے،

تفسير

فَاخْتَلَفَ الْاَحْزَابُ مِنْۢ بَيْنِهِمْۚ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْ عَذَابِ يَوْمٍ اَلِيْمٍ

فَٱخْتَلَفَ
پس اختلاف کیا
ٱلْأَحْزَابُ
گروہوں نے
مِنۢ
سے
بَيْنِهِمْۖ
ان کے درمیان
فَوَيْلٌ
پس ہلاکت ہے
لِّلَّذِينَ
ان لوگوں کے لیے
ظَلَمُوا۟
جنہوں نے ظلم کیا
مِنْ
سے
عَذَابِ
عذاب
يَوْمٍ
دن کے
أَلِيمٍ
دردناک

پس اُن کے درمیان (آپس میں ہی) مختلف فرقے ہو گئے، سو جن لوگوں نے ظلم کیا اُن کے لئے دردناک دن کے عذاب کی خرابی ہے،

تفسير

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ

هَلْ
نہیں
يَنظُرُونَ
وہ انتظار کرتے
إِلَّا
مگر
ٱلسَّاعَةَ
قیامت کا
أَن
کہ
تَأْتِيَهُم
آجائے ان کے پاس
بَغْتَةً
اچانک
وَهُمْ
اور وہ
لَا
نہ
يَشْعُرُونَ
شعور رکھتے ہوں

یہ لوگ کیا انتظار کر رہے ہیں (بس یہی) کہ قیامت اُن پر اچانک آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو،

تفسير

اَلْاَخِلَّاۤءُ يَوْمَٮِٕذٍۢ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ ۗ 

ٱلْأَخِلَّآءُ
دوست
يَوْمَئِذٍۭ
آج کے دن
بَعْضُهُمْ
ان میں سے بعض
لِبَعْضٍ
بعض کے لیے
عَدُوٌّ
دشمن ہوں گے
إِلَّا
مگر
ٱلْمُتَّقِينَ
تقوی والے

سارے دوست و احباب اُس دن ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے سوائے پرہیزگاروں کے (انہی کی دوستی اور ولایت کام آئے گی)،

تفسير

يٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَاۤ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَۚ

يَٰعِبَادِ
اے میرے بندو
لَا
نہیں
خَوْفٌ
کوئی خوف
عَلَيْكُمُ
تم پر
ٱلْيَوْمَ
آج
وَلَآ
اور نہ
أَنتُمْ
تم
تَحْزَنُونَ
تم غمگین ہو گے

(اُن سے فرمایا جائے گا): اے میرے (مقرّب) بندو! آج کے دن تم پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی تم غم زدہ ہو گے،

تفسير

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا مُسْلِمِيْنَۚ

ٱلَّذِينَ
وہ لوگ
ءَامَنُوا۟
جو ایمان لائے
بِـَٔايَٰتِنَا
ہماری آیات پر
وَكَانُوا۟
اور تھے وہ
مُسْلِمِينَ
مسلمان (ان سے کہا جائے گا)

(یہ) وہ لوگ ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور ہمیشہ (ہمارے) تابعِ فرمان رہے،

تفسير

اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُوْنَ

ٱدْخُلُوا۟
داخل ہوجاؤ
ٱلْجَنَّةَ
جنت میں
أَنتُمْ
تم
وَأَزْوَٰجُكُمْ
اور تمہاری بیویاں
تُحْبَرُونَ
تم خوش رکھے جاؤ گے

تم اور تمہارے ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی٭ (سب) جنت میں داخل ہو جاؤ (جنت کی نعمتوں، راحتوں اور لذّتوں کے ساتھ) تمہاری تکریم کی جائے گی، ٭ مفسرین کرام نے آیتِ کریمہ میں اَزوَاجُکُم کا معنی بیویوں کے علاوہ ”قریبی ساتھی“ بھی کیا ہے جیسے امام قرطبی نے تفسیر ”الجامع لاحکام القرآن (۱۶: ۱۱۱ )“ میں، امام ابن کثیر نے ”تفسیر القرآن العظیم (۴: ۱۳۴)“ میں، اور امام شوکانی نے تفسیر ”فتح القدیر (۴: ۵۶۳)“ میں یہ معنی بیان کیا ہے۔ اسی بناء پر یہاں اَزوَاج کا معنی بیویوں کی بجائے ”ساتھ جڑے رہنے والے ساتھی“ کیا گیا ہے۔

تفسير