Skip to main content

وَمِمَّنْ خَلَقْنَاۤ اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَـقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ

وَمِمَّنْ
اور اس میں سے جو
خَلَقْنَآ
پیدا کیے ہم نے
أُمَّةٌ
ایک گروہ ہے
يَهْدُونَ
جو راہنمائی کرتے ہیں
بِٱلْحَقِّ
حق کے ساتھ
وَبِهِۦ
اور ساتھ اس کے
يَعْدِلُونَ
وہ انصاف کرتے ہیں

اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں،

تفسير

وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ

وَٱلَّذِينَ
اور وہ لوگ
كَذَّبُوا۟
جنہوں نے جھٹلایا
بِـَٔايَٰتِنَا
ہماری آیات کو
سَنَسْتَدْرِجُهُم
عنقریب ہم بتدریج لے جائیں گے ان کو
مِّنْ
سے
حَيْثُ
جہاں (سے)
لَا
نہیں
يَعْلَمُونَ
وہ علم رکھتے

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ہم عنقریب انہیں آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف لے جائیں گے ایسے طریقے سے کہ انہیں خبر بھی نہیں ہوگی،

تفسير

وَاُمْلِىْ لَهُمْ ۗۗ اِنَّ كَيْدِىْ مَتِيْنٌ

وَأُمْلِى
اور میں مہلت دے رہا ہوں ان کو۔ میں ڈھیل دے رہا ہوں
لَهُمْۚ
ان کو
إِنَّ
بیشک
كَيْدِى
میری چال
مَتِينٌ
بہت پکی ہے۔ مضبوط ہے

اور میں انہیں مہلت دے رہا ہوں، بیشک میری گرفت بڑی مضبوط ہے،

تفسير

اَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوْا مَا بِصَاحِبِهِمْ مِّنْ جِنَّةٍ ۗ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ

أَوَلَمْ
کیا بھلا نہیں
يَتَفَكَّرُوا۟ۗ
انہوں نے غور و فکر کیا
مَا
نہیں ہے
بِصَاحِبِهِم
ان کے ساتھی کو
مِّن
سے
جِنَّةٍۚ
کوئی جنون
إِنْ
نہیں
هُوَ
وہ
إِلَّا
مگر
نَذِيرٌ
ڈرانے والا ہے
مُّبِينٌ
کھلم کھلا

کیا انہوں نے غور نہیں کیا کہ انہیں (اپنی) صحبت کے شرف سے نوازنے والے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون سے کوئی علاقہ نہیں، وہ تو (نافرمانوں کو) صرف واضح ڈر سنانے والے ہیں،

تفسير

اَوَلَمْ يَنْظُرُوْا فِىْ مَلَـكُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَىْءٍ ۙ وَّاَنْ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُهُمْ ۚ فَبِاَىِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ

أَوَلَمْ
کیا بھلا نہیں
يَنظُرُوا۟
انہوں نے دیکھا
فِى
میں
مَلَكُوتِ
انتقام (میں)
ٱلسَّمَٰوَٰتِ
آسمانوں کے
وَٱلْأَرْضِ
اور زمین کے
وَمَا
اور جو
خَلَقَ
پیدا کیا
ٱللَّهُ
اللہ نے
مِن
سے
شَىْءٍ
کسی بھی چیز کو
وَأَنْ
اور یہ کہ
عَسَىٰٓ
امید ہے
أَن
کہ
يَكُونَ
ہو
قَدِ
تحقیق
ٱقْتَرَبَ
قریب آگئی
أَجَلُهُمْۖ
ان کی مدت
فَبِأَىِّ
تو ساتھ کس
حَدِيثٍۭ
بات کے
بَعْدَهُۥ
اس کے بعد
يُؤْمِنُونَ
وہ ایمان لائیں گے

کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ (موت) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے،

تفسير

مَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَا هَادِىَ لَهٗ ۗ وَ يَذَرُهُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ

مَن
جس کو
يُضْلِلِ
بھٹکا دیتا ہے
ٱللَّهُ
اللہ
فَلَا
پس نہیں
هَادِىَ
کوئی ہدایت دینے والا
لَهُۥۚ
اس کو
وَيَذَرُهُمْ
اور چھوڑ دیتا ہے ان کو
فِى
میں
طُغْيَٰنِهِمْ
ان کی سرکشی
يَعْمَهُونَ
وہ سرگرداں پھرتے ہیں۔ وہ حیران پھرتے ہیں

جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے (کوئی) راہ دکھانے والا نہیں، اور وہ انہیں ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتا ہے تاکہ (مزید) بھٹکتے رہیں،

تفسير

يَسْـَٔـــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰٮهَا ۗ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّىْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَاۤ اِلَّا هُوَ ۘ ثَقُلَتْ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۗ لَا تَأْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْـــَٔلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِىٌّ عَنْهَا ۗ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ

يَسْـَٔلُونَكَ
وہ پوچھتے ہیں آپ سے
عَنِ
بارے میں
ٱلسَّاعَةِ
قیامت کے
أَيَّانَ
کب ہے
مُرْسَىٰهَاۖ
ٹھہرنا اس کا
قُلْ
کہہ دیجیے
إِنَّمَا
بیشک
عِلْمُهَا
علم اس کا
عِندَ
پاس ہے
رَبِّىۖ
میرے رب کے
لَا
نہ
يُجَلِّيهَا
ظاہر کرے گا اس کو
لِوَقْتِهَآ
اس کے وقت پر
إِلَّا
مگر
هُوَۚ
وہی
ثَقُلَتْ
بھاری ہوگا
فِى
میں
ٱلسَّمَٰوَٰتِ
آسمانوں
وَٱلْأَرْضِۚ
اور زمین میں
لَا
نہیں
تَأْتِيكُمْ
آئے گی تمہارے پاس
إِلَّا
مگر
بَغْتَةًۗ
اچانک
يَسْـَٔلُونَكَ
پوچھتے ہیں آپ سے
كَأَنَّكَ
گویا کہ آپ
حَفِىٌّ
باخبر ہیں
عَنْهَاۖ
اس سے
قُلْ
کہہ دیجیے
إِنَّمَا
بیشک
عِلْمُهَا
علم اس کا
عِندَ
کے پاس ہے
ٱللَّهِ
اللہ
وَلَٰكِنَّ
اور لیکن
أَكْثَرَ
اکثر
ٱلنَّاسِ
لوگ
لَا
نہیں
يَعْلَمُونَ
جانتے

یہ (کفار) آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اس کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہے، اسے اپنے (مقررہ) وقت پر اس (اللہ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آجائے گی، یہ لوگ آپ سے (اس طرح) سوال کرتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں، فرما دیں کہ اس کا علم تو محض اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے،

تفسير

قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِىْ نَـفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۤءَ اللّٰهُ ۗ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ۛ وَمَا مَسَّنِىَ السُّۤوْءُ ۛ اِنْ اَنَاۡ اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ

قُل
کہہ دیجیے
لَّآ
نہیں
أَمْلِكُ
میں مالک
لِنَفْسِى
اپنے نفس کے لیے
نَفْعًا
کسی نفع کا
وَلَا
اور نہ
ضَرًّا
کسی نقصان کا
إِلَّا
مگر
مَا
جو
شَآءَ
چاہے
ٱللَّهُۚ
اللہ
وَلَوْ
اور اگر
كُنتُ
ہوتا میں
أَعْلَمُ
جانتا
ٱلْغَيْبَ
غیب کو
لَٱسْتَكْثَرْتُ
البتہ میں جمع کرلیتا۔ کثرت سے حاصل کرلیتا
مِنَ
میں سے
ٱلْخَيْرِ
بھلائی
وَمَا
اور نہ
مَسَّنِىَ
چھوتی مجھ کو
ٱلسُّوٓءُۚ
کوئی تکلیف
إِنْ
مگر
أَنَا۠
میں
إِلَّا
مگر
نَذِيرٌ
ڈرانے والا
وَبَشِيرٌ
اور خوشخبری دینے والا
لِّقَوْمٍ
اس قوم کے لیے
يُؤْمِنُونَ
جو ایمان لاتی ہو

آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصبِ رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭، ٭ڈر اور خوشی کی خبریں بھی اُمورِ غیب میں سے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرماتا ہے کیونکہ مِن جانبِ اللہ ایسی اِطلاع علی الغیب کے بغیر نہ تو نبوت و رسالت متحقق ہوتی ہے اور نہ ہی یہ فریضہ ادا ہو سکتا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں فرمایا گیا ہے: وَمَا ھُوَ عَلَی الغَیبِ بِضَنِین ٍ(التکویر، ٨١: ٢٤) (اور یہ نیی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب بتانے میں ہر گز بخیل نہیں)۔ اس قرآنی ارشاد کے مطابق غیب بتانے میں بخیل نہ ہونا تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر باری تعالیٰ نے کمال فراوانی کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علوم و اَخبارِ غیب پر مطلع فرمایا ہو، اگر سرے سے علمِ غیب عطا ہی نہ کیا گیا ہو تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غیب بتانا کیسا اور پھر اس پر بخیل نہ ہونے کا کیا مطلب؟ سو معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطلع علی الغیب ہونے کی قطعاً نفی نہیں بلکہ نفع و نقصان پر خود قادر و مالک اور بالذات عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

تفسير

هُوَ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰٮهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَٮِٕنْ اٰتَيْتَـنَا صَالِحًا لَّـنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ

هُوَ
وہ اللہ
ٱلَّذِى
وہ ذات ہے
خَلَقَكُم
جس نے پیدا کیا تم کو
مِّن
سے
نَّفْسٍ
جان (سے)
وَٰحِدَةٍ
ایک
وَجَعَلَ
اور بنایا
مِنْهَا
اس سے
زَوْجَهَا
اس کا جوڑا
لِيَسْكُنَ
تاکہ سکون حاصل کرے
إِلَيْهَاۖ
اس سے۔ اس کے پاس
فَلَمَّا
پھر جب
تَغَشَّىٰهَا
اس نے ڈھانپ لیا اس کو
حَمَلَتْ
اس نے اٹھایا
حَمْلًا
بوجھ
خَفِيفًا
ہلکا
فَمَرَّتْ
پس چلتی رہی
بِهِۦۖ
ساتھ اس کے
فَلَمَّآ
پھر جب
أَثْقَلَت
وہ بوجھل ہوگئی
دَّعَوَا
دونوں نے پکارا
ٱللَّهَ
اللہ کو
رَبَّهُمَا
جو رب ہے ان دونوں کا
لَئِنْ
البتہ اگر
ءَاتَيْتَنَا
دیا تو نے ہم کو
صَٰلِحًا
صحیح سلامت۔ صحیح اعضاء والا (بچہ)
لَّنَكُونَنَّ
البتہ ہم ضرور ہوجائیں گے
مِنَ
میں سے
ٱلشَّٰكِرِينَ
شکر کرنے والوں

اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے، پھر جب مرد نے اس (عورت) کو ڈھانپ لیا تو وہ خفیف بوجھ کے ساتھ حاملہ ہوگئی، پھر وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ گراں بار ہوئی تو دونوں نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں اچھا تندرست بچہ عطا فرما دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہوں گے،

تفسير

فَلَمَّاۤ اٰتٰٮهُمَا صَالِحًـا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۤءَ فِيْمَاۤ اٰتٰٮهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

فَلَمَّآ
تو جب
ءَاتَىٰهُمَا
اس نے دیا ان دونوں کو
صَٰلِحًا
صحیح سلامت
جَعَلَا
ان دونوں نے بنا لیے
لَهُۥ
اس کے لیے
شُرَكَآءَ
شریک
فِيمَآ
اس میں جو
ءَاتَىٰهُمَاۚ
اس نے دیا ان کو
فَتَعَٰلَى
پس بلند ہے
ٱللَّهُ
اللہ
عَمَّا
اس سے جو
يُشْرِكُونَ
وہ شریک ٹھہراتے ہیں

پھر جب اس نے انہیں تندرست بچہ عطا فرما دیا تو دونوں اس (بچے) میں جو انہیں عطا فرمایا تھا اس کے لئے شریک ٹھہرانے لگے تو اللہ ان کے شریک بنانے سے بلند و برتر ہے،

تفسير