قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ اِذْ رَاوَدْتُّنَّ يُوْسُفَ عَنْ نَّـفْسِهٖۗ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوْۤءٍ ۗ قَالَتِ امْرَاَتُ الْعَزِيْزِ الْــٰٔنَ حَصْحَصَ الْحَقُّۖ اَنَاۡ رَاوَدْتُّهٗ عَنْ نَّـفْسِهٖ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ
بادشاہ نے (زلیخا سمیت عورتوں کو بلا کر) پوچھا: تم پر کیا بیتا تھا جب تم (سب) نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کی راست روی سے بہکانا چاہا تھا (بتاؤ وہ معاملہ کیا تھا)؟ وہ سب (بہ یک زبان) بولیں: اﷲ کی پناہ! ہم نے (تو) یوسف (علیہ السلام) میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیزِ مصر کی بیوی (زلیخا بھی) بول اٹھی: اب تو حق آشکار ہو چکا ہے (حقیقت یہ ہے کہ) میں نے ہی انہیں اپنی مطلب براری کے لئے پھسلانا چاہا تھا اور بیشک وہی سچے ہیں،
ذٰلِكَ لِيَـعْلَمَ اَنِّىْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَاَنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِىْ كَيْدَ الْخَـاۤٮِٕنِيْنَ
(یوسف علیہ السلام نے کہا: میں نے) یہ اس لئے (کیا ہے) کہ وہ (عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربّی تھا) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں (پشت پیچھے) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا،
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِىْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْۤءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ۗاِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُوْنِىْ بِهٖۤ اَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِىْۚ فَلَمَّا كَلَّمَهٗ قَالَ اِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ اَمِيْنٌ
اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)،
قَالَ اجْعَلْنِىْ عَلٰى خَزَاۤٮِٕنِ الْاَرْضِۚ اِنِّىْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ
یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں،
وَكَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ فِى الْاَرْضِۚ يَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاۤءُ ۗ نُصِيْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَاۤءُۚ وَلَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ
اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے،
وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَيْرٌ لِّـلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ
اور یقیناً آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقوٰی پر گامزن رہے،
وَجَاۤءَ اِخْوَةُ يُوْسُفَ فَدَخَلُوْا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهٗ مُنْكِرُوْنَ
اور (قحط کے زمانہ میں) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (غلہ لینے کے لئے مصر) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکے،
وَ لَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُوْنِىْ بِاَخٍ لَّكُمْ مِّنْ اَبِيْكُمْۚ اَلَا تَرَوْنَ اَنِّىْۤ اُوْفِی الْكَيْلَ وَاَنَاۡ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ
اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا (تو) فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز (بھی) ہوں،
فَاِنْ لَّمْ تَأْتُوْنِىْ بِهٖ فَلَا كَيْلَ لَـكُمْ عِنْدِىْ وَلَا تَقْرَبُوْنِ
پس اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو (آئندہ) تمہارے لئے میرے پاس (غلہ کا) کوئی پیمانہ نہ ہوگا اور نہ (ہی) تم میرے قریب آسکو گے،