وَلَوْ شِئْنَا لَبَـعَثْنَا فِىْ كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيْرًا ۖ
اور اگر ہم چاہتے تو ہر ایک بستی میں ایک ڈر سنانے والا بھیج دیتے،
فَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهٖ جِهَادًا كَبِيْرًا
پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر،
وَهُوَ الَّذِىْ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّهٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا
اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ یہ (ایک) میٹھا نہایت شیریں ہے اور یہ (دوسرا) کھاری نہایت تلخ ہے۔ اور اس نے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط رکاوٹ بنا دی،
وَهُوَ الَّذِىْ خَلَقَ مِنَ الْمَاۤءِ بَشَرًا فَجَعَلَهٗ نَسَبًا وَّ صِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيْرًا
اور وہی ہے جس نے پانی (کی مانند ایک نطفہ) سے آدمی کو پیدا کیا پھر اسے نسب اور سسرال (کی قرابت) والا بنایا، اور آپ کا رب بڑی قدرت والا ہے،
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْۗ وَكَانَ الْـكَافِرُ عَلٰى رَبِّهٖ ظَهِيْرًا
اور وہ (کفار) اللہ کے سوا ان (بتوں) کی عبادت کرتے ہیں جو انہیں نہ (تو) نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ (ہی) انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، اور کافر اپنے رب (کی نافرمانی) پر (ہمیشہ شیطان کا) مددگار ہوتا ہے،
وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا
اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر (اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو) خوشخبری سنانے والا اور (بغاوت شعار لوگوں کو) ڈر سنانے والا بنا کر،
قُلْ مَاۤ اَسْــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَاۤءَ اَنْ يَّـتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا
آپ فرما دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغ) پر کچھ بھی معاوضہ نہیں مانگتا مگر جو شخص اپنے رب تک (پہنچنے کا) راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے (کرلے)،
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَـىِّ الَّذِىْ لَا يَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهٖ ۗ وَكَفٰى بِهٖ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِيْرًا ۚ
اور آپ اس (ہمیشہ) زندہ رہنے والے (رب) پر بھروسہ کیجئے جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہئے، اور اس کا اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونا کافی ہے،
اَلَّذِىْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِىْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ ۚ اَلرَّحْمٰنُ فَسْـَٔـــلْ بِهٖ خَبِيْرًا
جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار میں پیدا فرمایا٭ پھر وہ (حسبِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا (وہ) رحمان ہے، (اے معرفتِ حق کے طالب!) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اس کا حال نہیں جانتے)، ٭ (ستۃ اَیّام سے مراد چھ اَدوارِ تخلیق ہیں، معروف معنٰی میں چھ دن نہیں کیونکہ یہاں تو خود زمین اور جملہ آسمانی کرّوں، کہکشاؤں، ستاروں، سیاروں اور خلاؤں کی پیدائش کا زمانہ بیان ہو رہا ہے، اس وقت رات اور دن کا وجود کہاں تھا؟)
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ اَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُوْرًا
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم رحمان کو سجدہ کرو تو وہ (منکرینِ حق) کہتے ہیں کہ رحمان کیا (چیز) ہے؟ کیا ہم اسی کو سجدہ کرنے لگ جائیں جس کا آپ ہمیں حکم دے دیں اور اس (حکم) نے انہیں نفرت میں اور بڑھا دیا،