فَانْطَلَقَا ۗ حَتّٰۤى اِذَا رَكِبَا فِى السَّفِيْنَةِ خَرَقَهَا ۗ قَالَ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَا ۚ لَقَدْ جِئْتَ شَيْــًٔـا اِمْرًا
پس دونوں چل دیئے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے (تو خضر علیہ السلام نے) اس (کشتی) میں شگاف کر دیا، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا آپ نے اسے اس لئے (شگاف کر کے) پھاڑ ڈالا ہے کہ آپ کشتی والوں کو غرق کردیں، بیشک آپ نے بڑی عجیب بات کی،
قَالَ اَلَمْ اَقُلْ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِىَ صَبْرًا
(خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے،
قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِىْ بِمَا نَسِيْتُ وَلَا تُرْهِقْنِىْ مِنْ اَمْرِىْ عُسْرًا
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: آپ میری بھول پر میری گرفت نہ کریں اور میرے (اس) معاملہ میں مجھے زیادہ مشکل میں نہ ڈالیں،
فَانْطَلَقَا ۗ حَتّٰۤى اِذَا لَقِيَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ ۙ قَالَ اَقَتَلْتَ نَـفْسًا زَكِيَّةً ۢ بِغَيْرِ نَـفْسٍ ۗ لَـقَدْ جِئْتَ شَيْــًٔـا نُّـكْرًا
پھر وہ دونوں چل دیئے یہاں تک کہ دونوں ایک لڑکے سے ملے تو (خضر علیہ السلام نے) اسے قتل کر ڈالا، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: کیا آپ نے بے گناہ جان کو بغیر کسی جان (کے بدلہ) کے قتل کر دیا ہے، بیشک آپ نے بڑا ہی سخت کام کیا ہے،
قَالَ اَ لَمْ اَ قُلْ لَّكَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيْعَ مَعِىَ صَبْرًا
(خضرعلیہ السلام نے) کہا: کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر ہرگز صبر نہ کر سکیں گے،
قَالَ اِنْ سَاَ لْـتُكَ عَنْ شَىْءٍۢ بَعْدَهَا فَلَا تُصٰحِبْنِىْ ۚ قَدْ بَلَـغْتَ مِنْ لَّدُنِّىْ عُذْرًا
موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کی نسبت سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا، بیشک میری طرف سے آپ حدِ عذر کو پہنچ گئے ہیں،
فَانْطَلَقَاۗ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَيَاۤ اَهْلَ قَرْيَةِ ِ سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ يُّضَيِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّـنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ ۗ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَـتَّخَذْتَ عَلَيْهِ اَجْرًا
پھر دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب دونوں ایک بستی والوں کے پاس آپہنچے، دونوں نے وہاں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے ان دونوں کی میزبانی کرنے سے انکار کر دیا، پھر دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا چاہتی تھی تو (خضر علیہ السلام نے) اسے سیدھا کر دیا، موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: اگر آپ چاہتے تو اس (تعمیر) پر مزدوری لے لیتے،
قَالَ هٰذَا فِرَاقُ بَيْنِىْ وَبَيْنِكَ ۚ سَاُنَـبِّئُكَ بِتَأْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْهِ صَبْرًا
(خضرعلیہ السلام نے) کہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان جدائی (کا وقت) ہے، اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کئے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کر سکے،
اَمَّا السَّفِيْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِيْنَ يَعْمَلُوْنَ فِى الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا وَكَانَ وَرَاۤءَهُمْ مَّلِكٌ يَّأْخُذُ كُلَّ سَفِيْنَةٍ غَصْبًا
وہ جو کشتی تھی سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی وہ دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کر دوں اور (اس کی وجہ یہ تھی کہ) ان کے آگے ایک (جابر) بادشاہ (کھڑا) تھا جو ہر (بے عیب) کشتی کو زبردستی (مالکوں سے بلامعاوضہ) چھین رہا تھا،
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِيْنَاۤ اَنْ يُّرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَّكُفْرًاۚ
اور وہ جو لڑکا تھا تو اس کے ماں باپ صاحبِ ایمان تھے پس ہمیں اندیشہ ہوا کہ یہ (اگر زندہ رہا تو کافر بنے گا اور) ان دونوں کو (بڑا ہو کر) سرکشی اور کفر میں مبتلا کر دے گا،