قَوْمَ فِرْعَوْنَۗ اَلَا يَتَّقُوْنَ
(یعنی) قومِ فرعون کے پاس، کیا وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے،
قَالَ رَبِّ اِنِّىْۤ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِۗ
موسٰی (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے رب! میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے،
وَيَضِيْقُ صَدْرِىْ وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِىْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ
اور (ایسے ناسازگار ماحول میں) میرا سینہ تنگ ہوجاتا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چلتی سو ہارون (علیہ السلام) کی طرف (بھی جبرائیل علیہ السلام کو وحی کے ساتھ) بھیج دے (تاکہ وہ میرا معاون بن جائے)،
وَلَهُمْ عَلَىَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ يَّقْتُلُوْنِۚ
اور ان کا میرے اوپر (قبطی کو مار ڈالنے کا) ایک الزام بھی ہے سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر ڈالیں گے،
قَالَ كَلَّا ۚ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ
ارشاد ہوا: ہرگز نہیں، پس تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ بیشک ہم تمہارے ساتھ (ہر بات) سننے والے ہیں،
فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَاۤ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ
پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو: ہم سارے جہانوں کے پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں،
اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَ ۗ
(ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے،
قَالَ اَلَمْ نُرَبِّكَ فِيْنَا وَلِيْدًا وَّلَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِيْنَۙ
(فرعون نے) کہا: کیا ہم نے تمہیں اپنے یہاں بچپن کی حالت میں پالا نہیں تھا اور تم نے اپنی عمر کے کتنے ہی سال ہمارے اندر بسر کئے تھے،
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِىْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ
اور (پھر) تم نے اپنا وہ کام کر ڈالا جو تم نے کیا تھا (یعنی ایک قبطی کو قتل کر دیا) اور تم ناشکر گزاروں میں سے ہو (ہماری پرورش اور احسانات کو بھول گئے ہو)،
قَالَ فَعَلْتُهَاۤ اِذًا وَّاَنَاۡ مِنَ الضَّاۤلِّيْنَۗ
(موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: جب میں نے وہ کام کیا میں بے خبر تھا (کہ کیا ایک گھونسے سے اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے)،